QAIM JAFRI

 

 

 

 

 

 

 

قائمؔ جعفری

نام سید محمود علی تخلص قائم – ادبی نام قائم جعفری حیدر دکن کے ایک معروف شاعر اہلبیت 28 دسمبر 2005 کو خالق حقیقی سے جا ملے. قائم جعفری کی ولادت 29 شعبان 1342 بمطابق 5 اپریل 1924 میں ہوئی. شاعری کی ابتدا بارہ برس کی عمر میں ہوئی گویا قائم جعفری نصف صدی سے زیادہ عرصے تک اشعار کہتے رہے
حُسن اصنافِ سُخن مدح کی جاگیر میں ہے
گوشہ ِ فکر نیا اب مری تقدیر میں ہے
ذوالفقار آئ فلک سے مرا ایماں ہے مگر
زور ِ حیدرؑ سے الگ دم کہاں شمشیر میں ہے
فکر کو اور بھی ذی شان بنا لوں تو چلوں
بزم مدحت میں چراغ اپنا جلا لوں تو چلوں
ملک الموت ٹھہر جاؤ گھڑی بھر کے لیے
مدح ِ حیدرؑ ابھی کچھ اور سنا لوں تو چلوں
قائم جعفری نے علامہ نجم آفندی سے شرف تلمذ پایا وہ خود کہتے تھے کہ میں نے مدح کا سلیقہ اور مداحی کے آئین علامہ صاحب سے ہی سیکھے. اسی واسطے سے ان کا شعری سلسلہ نسب مرزا دبیر اعلی الله مقامہ سے ملتا ہے مگر قائم نے ایجاد و اختصار سے کام لیتے ہوئے اپنے مرثیوں کو حسب حال بنایا جب تک علامہ نجم آفندی حیدرآباد دکن میں رہے تو قائم جعفری ان سے منسلک رہے اور بعد میں علامہ کے فرزند مرحوم سہیل آفندی کی رہنمائی میں مرثیے کہے
مرثیے کی مرے تاثیر بڑھا دے یارب
میرؔ و مرزاؔ کی زباں مجھ کو سکھا دے یارب
حضرت نجمؔ کا انداز ثنا دے یارب
فکر کو نور تخیل کو ضیاء دے یارب
طبع ِ قائمؔ کو ذرا اور روانی دے دے
تو سخن کو مرے اکبرؑ کی جوانی دے دے
قطعات و رباعیات
دلنشیں ہے دلربا ہے دل نواز تشنگی
ایک ششماہے سے پوچھو کیا ہے راز تشنگی
ہے گداز قلب کتنا اصغرؑ معصوم کا
ہو رہے ہیں تیر سے راز و نیاز تشنگی
غم حسین نہیں کم کسی خزینے سے
کیا ہے ہم نے بھی ماتم بڑے قرینے سے
لحد میں آکے فرشتے ادب سے بیٹھ گئے
شعاے نور جو پھوٹی ہمارے سینے سے
چشم ہستی کے اعتبار میں ہوں
کچھ اصولوں کے اختیار میں ہوں
کب بلا قصد جی رہا ہوں میں
ایک صاحب کے انتظار میں ہوں
قائم جعفری صاحب نے کئی منقبتیں اور قصائد کہے ہیں کچھ مثالیں پیش خدمت ہیں
مسکراے سرور ِ عالم اجالا ہوگیا
چھٹ گئی ظلمت فضا بدلی سویرا ہوگیا
حسن یوسفؑ کا فسانہ کھو چکا رنگینیاں
داستاں گوئی کی دنیا میں اندھیرا ہوگیا
دھڑکنوں سے دل کے آتی ہے صداے مصطفیٰﷺ
کس قدر ایمان سے مظبوط رشتہ ہوگیا
جھک گئیں میری نگاہیں سجدہ ِ تعظیم میں
جب بھی قائمؔ ُرخ مرا سوے مدینہ ہوگیا
خطبات عمل میں ہیں افکار ابوطالبؑ
عباس کے تیور تھے پیکار ابوطالبؑ
اول بھی محمد ہے آخر بھی محمدﷺ ہے
سرسبز نظر آیا گلزار ابوطالبؑ
یوں ہی نہیں کرتا ہے قرآن ثنا خوانی
تھا حق کی نگاہوں میں کردار ابوطالبؑ
اس دور کوئی بھی آیا نہ مقابل میں
اس دور میں آے ہیں غدار ِ ابوطالبؑ
کیا ڈھونڈتے پھرتے ہو اس خاک کے عالم میں
غیبت میں ہیں پوشیدہ معیار ابوطالبؑ
دشمن نے کبھی قائم سوچا بھی نہیں ہوگا
دربار علیؑ ہے اب دربار ِ ابوطالبؑ
مدح ِ علیؑ میں طرز فصیحانہ مل گیا
اے دوست مجھ کو کار شریفانہ مل گیا
فکر و شعور و منبر و احساس و آگہی
صدقے میں اہلبیت کے کیا کیا نہ مل گیا
دھڑکن سے دل کی ماتم شبیر ہے یاں
دل کیا مجھے ملا کہ عزا خانہ مل گیا
مدح علی نے کردیا عقبی سے بے نیاز
قائمؔ کو باغ خلد کا پروانہ مل گیا
منقبتِ غدیر
خاص حلقہ میں ہے نظام غدیر
اہل دل پی رہے ہیں جام غدیر
ہیں جو مصروف بوذر و سلماں
ان کے ہاتھوں میں ہے انتظام غدیر
دشمنوں کے لیے ہے انگارہ
پھول اپنے لیے ہے نام غدیر
منہ اتر جائے اہل شورہ کا
یاد آے جو ازدہام غدیر
آج ساقی کا یوم ہے قائم
بے طلب مل رہے ہیں جام غدیر
فارسی منقبت کے کچھ اشعار در مدح حضرت فاطمہ زہرا
السلام اے عصمت کبری بتول
السلام اے پارہ قلب رسول
السلام اے سیدہ اے صابرہ
السلام ام ابیھا فاطمہ
در نگاہض نوریاں علیا مقام
آمدہ نور سحر بہر سلام
مقصد تکوین مثل مصطفیٰ
مرکز تطہیر ، کفو مرتضیٰ
ہستی تو راز دان کن فکاں
قلب تو مثل مکان لامکاں
آیہ تطہیر را عنوان ہست
فاطمہ سر تا قدم ایمان ہست
یک عزادار حسین ابن علی
بندہ در ہست قائم جعفری
در مدح حضرت عباسؑ
زہرا کا اعتبار ہے عباس کا وجود
کس درجہ ذی وقار ہے عباس کا وجود
اہل وفا کے دل میں ہے عباس کا مقام
ہر بے وفا پہ بار ہے عباس کا وجود
جھوٹی قسم نہ کھاے گا عباس کی کوئی
تا حشر برقرار ہے عباس کا وجود
کلثوم ہو سکینہ ہو زینب ہو یا حسین
ہر ایک کا قرار ہے عباس کا وجود
قائم یہ فیصلہ ہے ہر اک حق شعار کا
اسلام کا نکھار ہے عباس کا وجود
فردوس فکر میں قائم کے دو مرثیے ہیں جن میں سے ایک “شباب ، حسن اور عشق” کے عنوان سے ہے جو حضرت علی اکبر کا حال کا مرثیہ ہے جب کہ دوسرا مرثیہ “معیار وفا” جو حضرت عباس ابن علی کے حال میں ہے. قائم مرثیے میں سلاست و روانی کے قائل ہیں وہ قاری یا سامع کو اپنی گرفت میں رکھتے ہیں یہی ان کے اسلوب کی خوبی بھی ہے اور شناخت بھی۔ حضرت علی اکبر کے حال کے مرثیے میں قائم جعفری نے مرثیے کو شباب ، حسن اور عشق کی توجیہات سے سجایا ہے . مرثیے کے چہرہ میں شباب ، حسن اور عشق کو دیکھیے
جذبہ دل کا ہے ممنون ریاضت کا شباب
وجہ الہام ہوا فہم و فراست کا شباب
دلبری میں نظر آتا ہے قیامت کا شباب
رخ ممدوح کا اک عکس ہے جنت کا شباب
کہاں لفظوں سے نمایاں ہوئی تنویر شباب
کب مصور سے بنائی گئی تصویر شباب
افق زیست پہ جس وقت نکلتا ہے شباب
حال و ماضی کے روایات بدلتا ہے شباب
زلزلے آتے ہیں جس راہ پہ چلتا ہے شباب
کہیں طاقت کے سنبھالے سے سنبھلتا ہے شباب
انقلابات کے چہروں پہ نکھر جاتا ہے
حادثے آئیں تو کچھ اور ابھر جاتا ہے
ُحُسن
حُسن کے دعوے میں ہے ایک دلیل محکم
اس کا ہلکا سا تبسم ہے کہ قندیل حرم
جن منازل میں ملے اس کے حسیں نقش قدم
سر جھکاتے ہیں وہیں اہل مودت پیہم
حسن بھی دید کی منزل میں نکھر جاتا ہے
کیا بساط اپنی ہے موسیٰ کو بھی غش آتا ہے
حسن کو نور کا بہتا ہوا دریا کہیے
منظر چشم تمنا کا سویرا کہیے
یا کسی پردہ نشیں کا رخ زیبا کہیے
مطلع فکر پہ بھی برق تجلی کہیے
حسن پاکیزگی نفس کا اک نام بھی ہے
حسن قدرت کا بشر کے لیے انعام بھی ہے
عشق
اے زہے عز و شرف کعبہ کا معمار ہے عشق
زیر خنجر بھی عبادات کا خریدار ہے عشق
ہو اگر دست مجاہد میں تو تلوار ہے عشق
حکم خالق ہو تو پھر صلح پہ تیار ہے عشق
عشق سردار بھی ہے اور سر ِ دار بھی ہے
عشق سلمانؓ بھی ہے اور میثم تمارؓ بھی ہے
عشق آدمؑ کا شرف ، نوحؑ کے طوفان سے پناہ
عشق یعقوبؑ کی تجدید بصارت کا گواہ
عشق یوسفؑ کا جمال اور زلیخا کی نگاہ
عشق معبود کی معراج ہے ، انا للہ
عشق کا نقش جبیں تربت بے شیر میں ہے
عشق کی آخری حد سجدہ ِ شبیرؑ میں ہے
اور اب حضرت علی اکبر کی طرف گریز
حسن اور عشق و جوانی کا فسانہ سن کر
ان پہ پڑنے لگی تاریخ ہدایت کی نظر
فیصلہ ہو نہ سکا کون ہے کس سے بہتر
سرنگوں ہو گئے سوچ کے سب جن و بشر
آئ آواز کہ تم سب ہو برابر کے شریک
روز ازل سے ہو انساں کے مقدر کے شریک
حسن مبدا سے چلا جانب مرکز پہنچا
لے کے انگڑائی رگ جاں سے شباب آ نکلا
عشق قربانی و ایثار پہ تیار ہوا
مل گئے سب تو سراپا علی اکبرؑ کا بنا
حسن نے اور جوانی نے سنوارا ان کو
جذبہ عشق نے ہر طرح نکھارا ان کو
اس کی ایک ایک ادا میں تھا رسولوں کا جلال
حسن سے اس کے حسن ازل کا تھا کمال
صدقے ہوتا تھا یہاں حضرت یوسف کا جمال
حشر تک اب نہیں ملنے کی کہیں اس کی مثال
علی اکبر تھے حقیقت میں پیمبر کا جواب
اب نہیں ہے کہیں اس حُسن کے پیکر کا جواب
دل شبیرؑ سے پوچھو علی اکبرؑ کا شباب
جان گلشن کی ہو جس طرح گل ِ تر کا شباب
ماں کی نظروں سے نہ بھولا گیا دلبر کا شباب
جس نے دیکھا کہا اس نے ہے پیمبرﷺ کا شباب
گھر میں چلتا تو پیمبرﷺ کی طرح چلتا تھا
رن میں آجاے تو حیدرؑ کی طرح چلتا تھا
اسی اکبر کو کہا جاتا ہے زینبؑ کا جگر
یہ جواں حضرت شبیرؑ کا ہے نور نظر
اس کی آنکھوں میں ہے سمٹا ہوا حسن گل تر
مطلع آل محمد کا ہے روشن یہ قمر
دیکھنے والوں کی آنکھوں میں محبت آئ
سال اٹھارواں آیا تو قیامت آئ
فردوس فکر میں دوسرا مرثیہ “معیار وفا” ہے۔ اس مرثیے کا چہرہ وفا کے نور سے منور ہے. رموز وفا کو ٥ بندوں میں بین کرکے چہرہ کا حق ادا کر دیا ہے مثلا
پنجہ ظلم سے انساں کو چھڑاتی ہے وفا
دل میں سوے ہوئے جذبوں کو جگاتی ہے وفا
درس احساس کا عمل یاد دلاتی ہے وفا
حوصلہ اور ، مصائب میں بڑھاتی ہے وفا
وار سب ظلم و تعدی کے اچٹ جاتے ہیں
تاج گرے جاتے ہیں اور تخت الٹ جاتے ہیں
کہیں لفظوں سے بنائی گئی تصویر وفا
کیا مفسر نے لکھی ہے کوئی تفسیر وفا
کس کی آنکھوں کے مقدر میں ہے تنویر وفا
پوچھو بیمار محبت ہی سے تاثیر وفا
مرض عشق کی شدت میں یہ کام آتی ہے
ایک پیغام حیات ابدی لاتی ہے
اور پھر حضرت عباس کی طرف مرثیے کا گریز کرتے ہیں
سن کے اعجاز وفا فکر نے پہلو بدلا
نگہ شوق نے میداں کی فضا کو دیکھا
خوش ہونٹوں پہ مچلنے لگی ساحل کی ہوا
یاد عباس کی آئ جو ہوا ذکر وفا
دل کی آنکھوں نے کبھی نقش قدم کو دیکھا
کبھی قامت کو کبھی مشک و علم کو دیکھا
کہاں انس کے اوصاف کہاں میری زباں
اس کے انداز شجاعت پہ بشر ہے حیراں
کبھی جعفر کا نشاں ہے کبھی حیدر کا نشاں
اک اشارے سے بدل دیتا ہے تقدیر جہاں
ہے یہ اعزاز کہ دلبند کہا ہے اس کو
فاطمہ زہرا نے فرزند کہا ہے اس کو
ایک بند میں حضرت عباس کا سراپا یوں رقم کرتے ہیں
کیسے نظروں میں سماے بنی ہاشم کا قمر
جس کی پیشانی پہ رہتا ہے سدا نور سحر
جس کے چہرے کو تکا کرتی ہے تاروں کی نظر
نام سے جس کے نمایاں ہے جلالت کا اثر
ناز تخلیق ہے تخلیق کا معیار ہے یہ
حسن کا عشق کا دونوں کا علمدار ہے یہ
ساقی نامہ کا ایک بند
اپنے میکش پہ کرم کی ہو نظر اے ساقی
جھومتا اٹھوں تو پہنچوں ترے در اے ساقی
جام تارے ہوں صراحی ہو قمر اے ساقی
ہوش باقی نہ رہے تا بہ سحر اے ساقی
مرثیہ اہل مودت کو سنانا ہے مجھے
عالم نشہ میں منبر پہ بھی جانا ہے مجھے
نہر پر کر لیا عباسؑ نے بڑھ کر قبضہ
ذرہ ذرہ نظر آنے لگا دریا دریا
تشنہ کاموں کی مقدر کا ستارہ چمکا
جھومتی آئ وہ میخانہ کوثر سے گھٹا
حسن تقدیر سے رندوں کی بن آئ ساقی
اب ہے عباس کے قبضہ میں ترائی ساقی
حضرت عباسؑ کی تلوار کی تعریف
رقص کرتا ہوا شعلہ ہے کہ تلوار ہے یہ
ملک الموت کا حربہ ہے کہ تلوار ہے یہ
اک قیامت کا نظارا ہے کہ تلوار ہے یہ
دست قدرت کا اشارہ ہے کہ تلوار ہے یہ
دست غازی میں یہ جس وقت مچل جاتی ہے
کفر اور شرک کی بنیاد دہل جاتی ہے
اور اس تحریر کو اس مرثیے کے مقطع پر ختم کرتے ہیں جو خود ایک مرثیہ ہے
یاد عباسؑ سے اٹھتا ہے جو آہوں کا دھواں
آج شاعر کی نگاہوں میں ہے تاریک جہاں
دل میں ہے درد سو آنکھ سے آنسو ہیں رواں
تم سے قائمؔ نہ ادا ہوگا مصائب کا بیاں
بن کے تصویر غم درد و الم آتا ہے
مرثیہ ختم کرو ، اٹھو ! علم آتا ہے
ہم قائم صاحب کے نواسے جناب سید وسیم زیدی کے انتہائ شکر گزار ہیں جنہوں نے قائم صاحب کا مجموعہ کلام ہم کو بھیجا . الله انہیں اس کا اجر دے۔
ترتیب و انتخاب و پیشکش : ذیشان زیدی

MARASI E QAIM JAFRI

AAB E RAWAN SARAB HAI KOSAR KE SAMNE

JANG E AZADI KO BHOLAY SE BAGHAWAT NA KAHO

JAZBA E DIL KA HAI MAMNOON REYAZAT KA SHABAB

KARWAT BADAL RAHI HAI FAZA RANG O NOOR KI

TOTAL MARSIYA = 4

 

Total Page Visits: 180 - Today Page Visits: 1

eMarsiya – Spreading Marsiyas Worldwide