AGHA SIKANDAR MEHDI

آغا سکندر مہدی

ترتیب و انتخاب و پیشکش : ذیشان زیدی
١٢ اپریل ١٩٧٦ آغا سکندر مہدی کا یوم وفات ہے. جدید مرثیے کے عظیم شعراء کی اتباع میں جن شعراء نے جدید مرثیہ گو شاعر کی حیثیت سے اپنی شناخت قائم کی ہے ان میں آغا سکندر مہدی کا نام قابلِ احترام ہے۔. پیدائش رائے بریلی بھارت میں ٣٠ جون ١٩٢٨ کو ہوئی. والد کا نام سیّد ظفر مہدی رضوی. ابتدائی تعلیم کے بعد ایف اے شیعہ کالج لکھنو سے کیا . بی اے لکھنو یونیورسٹی اور بی ٹی کی ڈگری الی گڑھ سے لے کر پاکستان آ گئے . زندگی کا زیادہ عرصہ بہاولپور میں گزرا . چار پانچ سال حسن ابدال میں گزارے جہاں عزاداری کی ابتدا کا سہرا بھی انہی کے سر ہے . پاکستان آنے کے بعد فن خطابت سے لگاؤ تھا لیکن پھر ذہن نے کروٹ لی اور مرثیہ کی طرف رجحان پیدا ہوا۔ سید زوار حسین شاہ کی تحریر کے مطابق ۱۹۶۷ء سے اپنی وفات ۱۹۷۶ء تک آغا مرثیہ گوئی کی طرف متوجہ رہے۔اس دوران میں انہوں نے سولہ مرثیے تصنیف کیے۔
آغا صاحب کا پختہ یقین تھا کہ دیگر اصناف سخن کے مقابلے میں مرثیہ اردو ادب کا سرتاج ہے. لکھتے ہیں
یوں تو اردو میں ہے موجود ہر اک صنفِ سُخن
چار اطراف میں بکھرا ہے رُباعی کا چمن
گل و بلبل سے ہے بھرپور غزل کا دامن
زینتِ دامنِ اردو ہے قصیدے کی پھبن
مثنوی قوت تخیل کا ہے حُسن ِ عمل
ہاں مگر مرثیہ تخلیق کا ہے تاج محل
قطعات و رباعیات
آئین شرافت ہے ، وفاداری ہے
ایمان ہے یہی اور یہی دینداری ہے
اے اہل خرد سطوتِ باطل کے خلاف
اک نعرہ حق رسم ِ عزادری ہے
کھاتا ہوں قسم ، خدمت اسلام کروں گا
جو دشمن دیں ہے انہیں بدنام کروں گا
بخشا ہے مجھے زور بیاں ربِ عُلا نے
شبیرؑ کے پیغام کو میں عام کروں گا
پیغام یہ حضرت کا صبا لائی ہے
مداح ہے ، شبیرؑ کا مولائی ہے
جس صف میں ہیں استاد انیس اور دبیر
آغا نے بھی اس صف میں جگہ پائی ہے
رشک سے دیکھیں گے مجھ کو اہل محشر دیکھنا
کام آے گا وہاں یہ دیدہ تر دیکھنا
کش مکش سے خیر و شر کی ، سرخرو ہوتا ہے کون
حلق سوار دیکھنا ، باطل کا خنجر دیکھنا
مختلف مرثیوں سے منتخب کچھ بند
حمد باری تعلی
اسم باری سے آغاز بیاں کرتا ہوں
کلمہ پاک سے مقصد کو یاں کرتا ہوں
حمد و تسبیح خداوند جہاں کرتا ہوں
سورہ نور کو میں ورد زباں کرتا ہوں
ذکر توحید عبادت ہے رقم ہوتا ہے
سرنگوں حمد الہی میں قلم ہوتا ہے
مدح سرکار رسالتمآب
حکم معبود سے جب نور محمدﷺ چمکا
کوئی موجود نہ تھا ، خالق یکتا کے سوا
نہ زماں تھا ، نہ مکاں تھا ، نہ خلا تھا نہ فضا
اور تو اور ہے خود عالم امکاں بھی نہ تھا
آئینہ حسن حقیقی کا تھا ، یکتائی تھی
ہر طرف نور محمدﷺ کی ضیاء چھائی تھی
یثرب کے سنگ ریزے بھی کہنے لگے تمام
چومے ہیں ہم نے دست رسولﷺ فلک مقام
اکثر ہوئے ہیں شاہ ہدی’ ہم سے ہم کلام
ان کا جو ذکر ہے تو ہمارا بھی آے نام
صدقے ہیں ان کے رونق بزم حیات ہیں
ہم بھی شریکِ مدح شہ کائنات ہیں
مدح امیر المومنین
مولا علیؑ کے نام سے دل کی کلی کھلی
حلال مشکلات ہے ، الله کا ولی
مولایوں کی روح جو الفاظ میں ڈھلی
گونجیں صدائیں چاروں طرف یا علی علی
نفس رسولﷺ سید و سردار المدد
یا بوتراب ، حیدرؑ کرار المدد
وجہ سکون قلب ہے مولا علیؑ کا نام
بعد رسولﷺ پاک ہیں جو خلق کے امام
ترویج حق میں رہتے تھے مشغول صبح و شام
جاں سے سوا عزیز تھا ، الله کا پیام
پرنور اپنے خون سے حق کا چمن کیا
بعد اپنے دین حق کو سپرد حسنؑ کیا
حسینی لشکر کی تعریف
فخرِ اسلام ہے عالم میں حسینی لشکر
جن کے کردار پہ نازاں تھے شہ جن و بشر
نصرِ ت حق کے لیے باندھی تھی ہر اک نے کمر
اس کا شاہد ہے حبیب ابن مظاہر کا سفر
نہ تو دولت کے لیے اور نہ حکومت کے لیے
یہ فقط آئے تھے شبیر کی نصرت کے لیے
حضرت قاسم کے مرثیے کے ابتدائی بند پڑھ کر لگتا ہے جیسے اس دور کے لئے کہے تھے مثلا
آفاق میں فساد کی پھیلی ہے تیرگی
انساں کو ڈس رہی ہے تمناے برتری
بغض و حسد کی آگ ہے ہر سو لگی ہوئی
اپنی لگائی آگ میں جلتا ہے آدمی
صید ہوس فریفتہ تاج و تخت ہے
انسان آنا کی آگ میں نمرود وقت ہے
اسی مرثیے میں حضرت قاسم کا سراپا
زلفیں ہیں یا کہ سایہ شمشیر حیدری
مثل گل شگفتہ ہیں رخسار نقرئی
آنکھیں ہیں یا کہ نور کی کلیاں کھلی ہوئی
صبح یقیں ہے چہرہ اقدس کی تازگی
باغِ حسن کے حسن کا آئینہ دار ہے
سر سے قدم تلک یہ سراپا بہار ہے
حضرت علی اکبر کی میدانِ جنگ میں آمد
برائے جنگ جو وہ صاحب کمال بڑھا
اُٹھا یہ شور کہ خیبر کشا کا لال بڑھا
مثال نور مبیں، حسن لازوال بڑھا
جلال آیا تو کچھ اور بھی جمال بڑھا
اُٹھا یہ غل کہ ہٹوقلعہ گیر آتے ہیں
قیامت آئی جناب امیر آتے ہیں
فرس سے اڑ کے جو اکبر چلے سُوئے مقتل
در آیا فوجِ عدو میں سوار رخشِ اجل
سمند کانپے ، سواروں میں مچ گئی ہلچل
لرز کے رہ گئے آگے نہ بڑھ سکے پیدل
سموں میں گھوڑوں کے جیسے نشان شاہی تھی
قدم جو تھک گئے ، ملک عدم کے راہی تھے
امام حسینؑ کا رجز
یاد تو ہو گا تمہیں بدر و احد کا میداں
زعم میں طاقت و کثرت کے تم آئے تھے جہاں
جب چلی حیدرؑ کرار کی تیغِ براں
ایسے بھاگے تھے کہ ملتا نہ تھا قدموں کا نشاں
پھر وہی زور ید اللہ دکھاتا ہے حسینؑ
لو!چلو! آؤ کہ میدان میں آتا ہے حسینؑ
ابتریِ فوجِ شام
حملۂ حُر سے ہراساں تھا یزیدی لشکر
موت سے ڈھونڈتا پھرتا تھا ہر اک راہِ مفر
وہ تلاطم تھا، نہ تھی باپ کو بیٹے کی خبر
نفسا نفسی تھی ہر اک سمت، بپا تھا محشر
میمنہ قلب سے لشکر کے جو ٹکراتا تھا
میسرہ فرطِ ندامت سے گڑا جاتا تھا
عون و محمد کا امام حسینؑ سے اذنِ جنگ
بولے ادب سے سر کو جھکا کر وہ نیک خو
ہم کو بھی ہے جہاد کی دنیا میں آرزو
مل جائے اذنِ جنگ تو ہم بھی ہوں سرخرو
کام آئے راہِ حق میں ہمارا بھی یہ لہو
دیں گے رضا حضور تو لڑنے کو جائیں گے
ہم دشمنوں کے خون کی ندی بہائیں گے
حضرت مسلم بن عقیل کی جنگ
مسلم نے تیغِ تیز کے جوہر دکھا دئیے
بدبخت اشقیا کے پرخچے اڑا دئیے
بڑھتے ہوئے لعین زمیں پر گرا دئیے
لاشیں گرائیں، کشتوں کے پشتے لگا دئیے
مسلم بن عقیل کے حملے شدید تھے
آئے جو سامنے وہ جہنم رسید تھے
بین
رخصت کے وقت خیمے میں کہرام تھا بپا
اہلِ حرم میں شور تھا ہائے حسینؑ کا
غفلت میں تھا مگر اُٹھا بیمار کربلا
بے چین ہو کے حضرت فضہ سے یہ کہا
کہرام کیوں بپا ہے یہ کیا شور شین ہے
فضہ کہو کہاں میرا بابا حسینؑ ہے
مولا گئے تو کہنے لگی سوگوار ماں
اے بیبیو!بتاؤ میرے لال ہیں کہاں
لاشیں دکھاؤ تاکہ تصدق ہو نیم جاں
چھایا ہوا ہے آنکھوں کے آگے مرا دھواں
سورج تو اتنا جلد کبھی ڈوبتا نہیں
کیا رات ہو گئی ہے مجھے سوجھتا نہیں
بتلاؤ بیبیو!مرے خورشید ہیں کہاں
مجھ کو بٹھا دو دونوں کی لاشوں کے درمیاں
اماں سے سرخ رو کیا قربان جائے ماں
ان پر زمیں بھی روئے گی روئے گا آسماں
میدان کار زار میں کیا نام کر کے آئے
میں جیسا چاہتی تھی وہی کام کر کے آئے
شہادت حضرت علی اصغر
بے جاں جو ہوا گود میں آغوش کا پالا
کہتے ہیں کہ ہونے لگا عالم تہہ و بالا
ہوتا نہیں اندازۂ صبر شہِ والا
کس طرح سے شبیر نے وہ تیر نکالا
آئی نہ قیامت تو یہ حضرت کا کرم تھا
اصغر کا لہو ناقہ صالح سے نہ کم تھا
شہادت امام حسین کے بعد جب خیموں میں آگ لگائی گئی تو سیدہ زینب امام وقت سے پوچھتی ہیں
اتنے میں آ کے ثانی زہرا نے یہ کہا
بیٹا امام وقت ہو تم ، حکم اب ہے کیا
باہر ہے ازدہام ، سروں پر نہیں ردا
اب کیا کریں کہ آخری خیمہ بھی جل چکا
فرمایا جان بچانے کو باہر نکل چلیں
سب بیبیاں یہاں سے کھلے سر نکل چلیں
آغا نے مراثی میں روایت کے احترام کے باوجود مرثیے کے مزاج کو بدلنے کی سعی کی۔ آغا سکندر مہدی اس لحاظ سے لائق احترام وتحسین ہیں کہ انہوں نے بہاول پور جیسے چھوٹے سے شہر میں اردو مرثیہ گوئی کے لیے فضا تیار کی۔شہاب دہلوی لکھتے ہیں :۔ ’’مجالس سے بہاول پور میں مرثیہ خوانی اور مرثیہ گوئی کی ایک خاص فضا تو قائم ہو ہی گئی تھی۔چنانچہ آغا سکندر مہدی صاحب نے اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مختلف لوگوں کو مرثیہ لکھنے کی دعوت دی‘‘
جدید مرثیے کے لیے آغا کی خدمات کا ذکر کرتے ہوئے ڈاکٹر اسد اریب کہتے ہیں :۔ ’’جناب آغا کا اردو ادب پر یہ بڑا کرم ہے کہ مرثیے کی حیاتِ نو میں بقدر ہمت و کمال حصہ لیا اور بہاول پور کو کراچی، پنڈی اور لاہور کے مماثل بنا دیا۔‘‘
آغا صاحب ذیابطیس کے پرانے مریض تھے . چند مہینے علیل رہ کر ١٢ اپریل ١٩٧٦ کو دار فانی سے کوچ کیا .پروردگار مغفرت فرماے
آغا ابھی بارہویں جماعت کے طالب علم تھے کہ ان کے والد سید ظفر مہدی رضوی کا اچانک انتقال ہو گیا تو انہوں نے بڑے بھائی کے کہنے پر شاعری ترک کر دی۔  اور تعلیم کی تکمیل میں منہمک ہو گئے۔تعلیم کی تکمیل کے بعد محکمہ تعلیم میں ملازمت کر لی اور بہاول پور میں سکونت اختیار کی۔دورانِ ملازمت انہوں نے خطابت کا شغل بھی جاری رکھا۔اسی دوران بھائی کے کہنے پر دوبارہ شاعری شر وع کر دی۔۱۹۶۷ء تک آغا غزلیں اور نظمیں کہتے رہے۔۱۹۶۵ء کی پاک بھارت جنگ کے موقع پر انہوں نے جوشیلی قومی نظمیں بھی کہیں۔ان کے اس دور کی شاعری بھی طبعی مناسبت اور گھر کی تربیت کے زیرِ اثر شہدائے کربلا کے ذکر سے کبھی خالی نہیں رہی۔
۔ آغا صاحب نے  1967 سے اپنی وفات 1976  تک سولہ مرثیے تصنیف کیے ۔آغا کے یہ تمام مرثیے مرثیہ معلیٰ جلد اول، دوم اور سوم کے نام سے شائع ہو چکے ہیں۔

Research. Compilation and Post by Irum Naqvi, Rawalpindi, Pakistan

MARASI E AGHA SIKANDAR MEHDI

 

AAJ PHIR KAWISH E AARAISH E FAN KARTA HOON

AAJ PHIR MAIL E PARWAZ HAI PARWAZ E QALAM

AATISH BADOSH NAGHMA E SAZ E SUKHAN HAI AAJ

ALAM KI ABTARI PE QALAM ASHKBAR HAI

AUJ E FALAK PE AAJ QALAM KI NIGAH HAI

BAZM E JAHAN MAIN AAJ AHAB KHALFISHAR HAI

EMAN KI ZIA MATLAE ANWAR E SUKHAN HAI

FARSH E AZA PE MAJMAE AHLE NAZAR HAI AAJ

FIKR KI ARZ O SAMAWAT MAIN JAULANI HAI

HAI GIRAFTAR E ANA ROZ E AZAL SE INSAAN

HAY AAJ PHIR QALAM E NUKTA RAS, WAQAR E SUKHAN

INSAN KO AAJ AMN O SUKOON KI TALASH HAI

ISM E ALLAH SE AGHAZ E BAYAN KARTA HOON

MAJLIS MAIN AAJ ROSHNI E SUBHE YAQEEN HAI

MAJLIS MAIN ZIKR E AZMAT E NAU E BASHAR HAI AAJ

MATLA E FIKR HAI EMAN KI ZIA SE ROSAHN

 

 

TOTAL MARSIYAS = 16

Total Page Visits: 3632 - Today Page Visits: 3

eMarsiya – Spreading Marsiyas Worldwide