MIRZA AUJ – اوج

 مرزا محمد جعفر اوج ؔ

ترتیب و انتخاب و پیشکش : ذیشان زیدی

18 اپریل مرزا دبیر کے بڑے فرزند مرزا اوج کا یوم وصال ہے ۔ مرزا اوج اعلی’ پاۓ کے مرثیہ نگار اور شاعری کے بڑے مجتہد تھے ۔ مرزا دبیر کے انتقال کے بعد سب نے ان کو جانشین ِ دبیر تسلیم کیا . شبلی نعمانی کا یہ قول ہے کہ “انصاف یہ ہے کہ آج مرزا اوج سے بڑھ کر کوئ شاعر اور مرثیہ گو نہیں ہے” عربی و فارسی کے عالم اور فن عروض کے ماہر تھے. ذہن رسا ، اختراع پسند طبیعت اور زبان کے رموز و نکات کے علاوہ علوم شعریہ میں بھی ید ِ طولی’ رکھتے تھے۔

رواں ہیں رزم کے میداں میں اب سنان ِ قلم
ہے معرکے میں شجاعت کے امتحان ِ قلم
بلند دوش ِ مضامیں پہ ہے نشان ِ قلم
ہے کہکشاں سے فزوں تر شکوہ و شان ِ قلم
سپاہ ِ ُکفر و ضلالت لہو ُاگلتی ہے
احد میں تیغ ِ جناب ِ امیرؑ چلتی ہے

نکلا کلیم مہر ِ کرن کا عصا لیے
پہرے نجوم ِ شب کے قمر نے اٹھا لیے
فرعونیوں نے دوش پہ ُگرز ِ جفا لیے
فوج ِ خدا نے سر پۓ نذر ِ خدا لیے
ُغل تھا کہ آرزو ہے شہادت کے تاج کی
زہرا ؑ کا چاند شام نہ دیکھے گا آج کی

مفتی میر عباس صاحب نے تخلص “اوج” اور “رفیع” تجویز فرما کر مرزا دبیر کو حق انتخاب عطا فرمایا. مرزا دبیر نے استخارے پر بنا کرکے اوج تخلص رکھا . تخلص اتنا مبارک ہوا کہ مرزا اوج نے بعد مرزا دبیر و میر انیس کے مرثیہ گوئی کے فن کو معراج کمال پر پہنچایا۔ اپنا پہلا مرثیہ 16 سال کی عمر میں کہا. دو بند پیش خدمت ہیں

اس مرثیے میں عید و محرم کا حال ہے
امید و یاس ، شادی و ماتم کا حال ہے
لکھنے میں حال کے خط ِ قوام کا حال ہے
ہمنام ِ بنت ِ حضرت آدم ؑ کا حال ہے
محبوب ِ زوالمنن کی نواسی کا ذکر ہے
پر بندش ِ حدیث ِ ولادت کی فکر ہے

جس دم ہلال ِ عید ِ ولادت عیاں ہوا
جاگے نصیب شب کے، خدا مہرباں ہوا
فانوس ِ شمع ِ عفت و عصمت نہاں ہوا
پروان وار صرف ِ طواف ، آسمان ہوا
یہ کہ کر ہر جبیں سے گرہ خود جدا ہوئی
پیدا جہاں میں دختر ِ مشکل کشا ہوئی

اوج اس لکھنو میں پل کر جوان ہوئے تھے جس کی شعری فضا پر انیس اور دبیر گھنے بادلوں کی طرح چھاۓ ہوئے تھے ۔ اوج کی عمر کوئی 23 برس کی تھی جب مرزا دبیر نے رحلت فرمائی۔ رثائی ادب کے آفتاب و ماہتاب انیس و دبیر کی 3 ہی مہینوں کے اندر وفات نے مرثیے کے پرستاروں کو بے حد غمگین کردیا تھا. مرزا اوج نے جب مرزا دبیر کی مجلس سوئم پر یہ رباعات پڑھیں تو کہرام مچ گیا

افسوس بلیغ نکتہ پرور نہ رہا
وہ قدر شناس اہل ِ جوہر نہ رہا
روشن ہے کلام کی بقا سے اے اوجؔ
آئینہ رہا مگر سکندر نہ رہا

صد حیف کہ خلاق ِ معنی نہ رہا
افسوس مذاق ِ خوش بیانی نہ رہا
اے اوج عبث زندگی ہے بعد ِ دبیرؔ
واللہ کہ لطف ِ زندگانی نہ رہا

انیس اور دبیر کی رحلتوں کے بعد کئ باکمال شعرا مثلا انس و مونس ، ماہر و کامل ، پیارے صاحب رشید، میر نفیس وغیرہ موجود تھے اور ان نامور حضرات کے مقابلے میں نام کرنا کوئی آسان کام نہ تھا مگر مرزا اوج کے کلام نے انکے کمال کا اعتراف بہت جلد کروا لیا. ان حضرات سے ملاقت کرنے اور خیریت معلوم کرنے کی غرض سے کبھی مرزا اوج ان کے وہاں جاتے اور کبھی یہ حضرات ان کے گھر آتے تھے۔ مرزا اوج نے ان سب حضرات کے ساتھ تا بہ عمر بڑے خوشگوار تعلقات رکھے اور کوئی ایسا واقعہ نہیں ہوا جس سے دلوں میں کشیدگی یا کسی قسم کا تناؤ پیدا ہوتا۔ مرزا اوج نے اس بزم میں قدم رکھتے ہی فن عروض میں ایک ایسی بے بہا کتاب “مقیاس الاشعار” کا اضافہ کیا کہ اس فن میں اس سے بہتر پھر کوئی کتاب شائع نہ ہوئی . اوج کو بالعموم اپنے وقت کا سب سے بڑا عروض داں تسلیم کیا جانے لگا۔ فرزند انیس جناب میر نفیس اپنے شاگردوں کو اس کتاب کے مطالہ کی ہدایت فرمایا کرتے تھے

سروش ِ غیب ہے گویا زبان ِ حمد ِ خدا
ہے جبرئیل تکلم بیان ِ حمد ِ خدا
ہر ایک بول سے بالا ہے شان ِ حمد ِ خدا
خدا کی شان ہے شان ِ نشان ِ حمد ِ خدا
ہے فرض ِ نطق زبان ِ آفریں کی حمد و ثنا
ُسخن کی جان ہے جان ِ آفریں کی حمد و ثنا

زبس جمیل بھی ہے اسم ِ قادر ِ متعال
تو کس طرح سے دکھایا ہے اس نے اپنا جمال
حسین خلق کیے کیسے کیسے با اقبال
کہ جن کے ُحسن سے ہوتا ہے اس کا استدلال
وہ کون ختم ِ رسالت اور آل ِ پاک ان کی
کہ محفل ِ نور ِ خدا اصل میں ہے خاک ان کی

مرزا اوج نے جب مرثیہ گوئی کے میدان میں قدم رکھا تو ان کے لئے اپنے والد کی قائم کی ہوئی علمی روایت کی تقلید کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری تھا کے معاشرتی زندگی کے تقاضوں اور بدلتے ہوے علمی و ادبی موضوعات کو نظر انداز نہ کریں چناچہ انہوں نے اپنے مرثیوں میں اس فن کے بنیادی تصورات کی پابندی کرتے ہوے موضوعات میں اتنی وسعت دے دی کے اس میں قومی و معاشرتی مسائل بھی شامل ہوگۓ ، اخلاقیات کا درس بھی – زندگی کے عبرتناک پہلو بھی اور فلسفہ و نفسیات کی باریکیاں بھی . اوج کے یہاں رثائیت کے ساتھ فکر بلندی بھی ہے اور رزم و بزم کے منظر بھی . انہوں نے اپنی شہریت اور مقبولیت پر فخر کرتے ہوا کہا

شہرت ہر ایک شہر میں اس گفتگو کی ہے
دہلی کا ہے مذاق ، زبان لکھنؤ کی ہے

رباعیات

ناکام کو کامیاب کر دیتا ہے
وہ غیب سے فتحیاب کر دیتا ہے
کافی ہے اسی کی مہربانی اوجؔ
جو ذرے کو آفتاب کر دیتا ہے

شبیرؑ نے ُکنہ ِ حق کو پہچان لیا
الله کو پردہ پوش ِ ُکل جان لیا
ہر شے دنیا کی بے حقیقت سمجھے
ایک تار ِ کفن کا بھی نہ احسان لیا

بقول نبیرہ مرزا اوج مرزا محمد صادقؔ کے وہ ڈھائی تین گھنٹے کی مجلس آرام سے پڑھ لیتے تھے۔ اوج کے نفس مطمئنہ کی عکاسی اس بند سے ہوتی ہے

ُرخ ِ نیاز سوۓ اہل ِ زر نہیں کرتے
وہ اس طرف تو ادھر ہم نظر نہیں کرتے
امید بن کے کسی دل میں گھر نہیں کرتے
جھکیں سلام کو یہ درد ِ سر نہیں کرتے
فقیر جس در ِ دولت کے ہیں پڑے ہیں وہیں
فرشتے جا نہیں سکتے جہاں کھڑے ہیں وہیں

پہنچ گیا جو وہاں طالع رسا پایا
پڑا جہاں یہ قدم نقش ِ ُمدعا پایا
وہیں سے خضر ِ طریقت نے راستا پایا
کہ بے نشاں کا پتہ مل گیا پتا پایا
اب اور چاہیے ہے خشک و تر میں کیا اس کو
جسے حسین ؑ ملے مل گیا خدا اس کو

اوج کے مرثیے کے کچھ بند در حال حضرت قاسمؑ ہمارے خاندان میں پچھلی 4 پشتوں سے سوز خوانی میں پڑھے جا رہے ہیں

آثار حشر کے ہیں عیاں روزگار میں
لٹتا ہے آہ باغ ِ جوانی بہار میں
قاسم ؑ گھرے ہوئے ہیں صف ِ کارزار میں
مادر ہے بیقرار ُادھر انتظار میں
جانباز کا علیؑ کے گھرانے سے کوچ ہے
گویا حسنؑ کا آج زمانے سے کوچ ہے

گرتے ہی دی ندا کہ چچا جان آیے
دنیا میں کوئی دم کا ہوں مہمان آیے
اعدا ستا رہے ہیں میں قربان آیے
قدموں کے دیکھنے کا ہے ارمان آیے
جلد آئیے حضور حمایت کا واسطے
آنکھوں میں دم ُرکا ہے زیارت کے واسطے

مرزا دبیر کے ایک مرثیے کا مطلع ہے “ناجی بخدا فرقہ اثنا عشری ہے” اس پس منظر میں اوج نے اپنی نجات کی پروا کیے بغیر بڑی خوبصورتی سے امام حسین سے عقیدت و دلچسپی کا اظہار کیا ہے

ہم سب اے کاش جہنم میں ہی جاتے مولا
پر نہ یہ داغ ِ جگر آپ اُٹھاتے مولا
امن عصیاں سے نہ ہم حشر میں پاتے مولا
آپ غربت میں مگر سر نہ کٹاتے مولا
ہجر ِ صغرا کا نہ داغ ِ علی اکبر سہتے
چین سے گھر میں صدا قبلۂ عالم رہتے

حیف اس وقت ہوئے کیوں نہ ہم اے شاہ ِ کریم
جوش ِ دل اب یہی کہتا ہے خدا اس کا علیم
نہ خلش اس میں رضا کی ہے نہ آمیزش بیم
نہ پئے دوری دوزخ نہ پئے فوز ِ عظیم
جب تو قاصر رہے ، پر آج نہِں قاصر ہیں
آپ کے دشمنوں سے لڑنے کو ہم حاضر ہیں

نور اول کا تذکرہ

ہو مشت ِ خاک سے کیوں کر ثناے نور ِ خدا
ہے مختصر سی یہ تعریف ُحسن ِ صل ِ علی’
بنا کے صانع قدرت نے جب انہیں دیکھا
تو ان کی صورتوں پہ آپ ہوگیا شیدا
جو ان کے بعد کیا خلق سب خدائی میں
وہ ان کو بخش دیا پہلی رونمائی میں

حضرت عبّاس کی آمد

لشکر میں ہوا ُغل کہ علمدار وہ آۓ
ہم دبدبہ جعفرؑ ِ طّیار وہ آۓ
نور ِ نظر ِ حیدرؑ کرار وہ آۓ
جعفرؑ کی طرح مرنے پہ تیار وہ آۓ
طوفاں خس و خاشاک سے حاشا نہ رکے گا
روکے سے یہ بہتا ہوا دریا نہ رکے گا

کربلا سے مدینے واپسی پر حضرت زینبؑ بی بی ام البنینؓ سے کہتی ہیں

عباسؑ کی تو مہر و وفا سب سے ہے برتر
الفت کا اطاعت کا ہوا خاتمہ ان پر
افضل شہدا میں ہیں ابو الفضل برادر
تعریف ہے تحریر سے تقریر سے باہر
آسکتی ہے کب انکی ثنا حد ِ بیاں میں
طاقت نہ قلم میں نہ طلاقت یہ زباں میں

بھائی کی غلامی کی وفا کہتے ہیں کس کو
مر کر نہ چھٹا ساتھ ولا کہتے ہیں کس کو
پیاسے رہے دریا پہ حیا کہتے ہیں کس کو
دی جان عزیز اور سخا کہتے ہیں کس کو
لشکر کا علمدار تو آقا نے بنایا
سقہ انھیں پر اپنا سکینہؑ نے بنایا

ایک طویل سلام جس کا ہر شعر کمال کا ہے. کچھ اشعار حاضر ہیں

دل نشیں حیدرؑ کی الفت ہو گئی
روح افزا ان کی اطاعت ہو گئی
کیسی یاور حرؓ کی قسمت ہو گئی
مرتے ہی جاگیر جنت ہو گئی
وصفِ حیدرؑ میں ملتے نہیں لفظ
صرف اردو کی بضاعت ہو گئی
اک قبا میں کی بسر مانندِ ِگل
ختم حیدرؑ پہ قناعت ہو گئی
دی اذاں جس نے حرم میں وہ علیؑ
محترم جس سے عبادت ہو گئی
وہ علیؑ باز و کبوتر سے عیاں
دہر میں جسکی عدالت ہو گئی
وہ علیؑ کونین کی طاعت سے
جسکی افضل ایک ضربت ہو گئی
~~~~~~~
پیش ِ عکس ُروے اکبرؑ چاندنی
فی الحقیقت کم حقیقت ہو گئی
سرخی ِ ُرخسار زیبا دیکھ کر
پھیکی پھیکی ُگل کی رنگت ہو گئی
گیسوے مشکیں کی خوشبو سونگھ کر
پانی پانی موج ِ نکہت ہو گئی
~~~~~~~~
بسکے زہرا ؑ و نبیؑ کے پھولوں سے
کربلا گلزار ِ جنت ہو گئی
شہ نے رخصت دی جو نور ِ چشم کو
آنکھوں سے بینائی رخصت ہو گئی
سر جو نیزے پہ چڑھا شہ کا تو اور
ُرونما شان ِ امامت ہو گئی
بے کفن اسجاد پر انکے سلام
دھوپ جن پر ابر ِ رحمت ہو گئی

مرزا اوج نے 18 اپریل 1917 کو انتقال کیا۔ مرنے سے پہلے ایک رباعی اور سلام کہا تھا

پختہ امید خام ہونے آئ
عمر ہستی تمام ہونے آئ
خواب غفلت سے تو نہ چونکا اے اوجؔ
صبح پیری کی شام ہونے آئ

جو انداز رقم اسکا وہ انداز رقم میرا
مگر شاگرد استاد ِ ازل کا ہے قلم میرا
گناہوں کی بھیڑ آگے فرشتوں کی صفیں پیچھے
قیامت عرصہ محشر میں ہے جاہ وحشم میرا
عبادت ہے نصیری کے خدا کی منقبت خوانی
وظیفہ ہے درود ِ حضرت خیر الامم میرا
مزہ چکھ کر فنا کا پھر رہوں کا تا ابد باقی
کہیں اس عالم ِ ہستی سے بہتر ہے عدم میرا
یہی اوجؔ سخنداں ہیں فنا فی الله کے معنی
ثنا خوان ِ علیؑ ہوں جب تلک ہے دم میں دم میرا

سید سکندر آغا نے پہلی بار اپنی کتاب مرزا اوج لکھنوی : “حیات اور کارنامے” میں اوج مرحوم کی حیات کے مختلف پہلوؤں پر ٹھوس دلائل اور شواہد کی مدد سے روشنی ڈالی ہے ۔ تفصیل میں لکھا جو لکھنے کا حق تھا اور مرزا اوج کے شاگردوں خصوصا خبیر لکھنوی ، یونس زیدپوری ، بادشاہ حسین رضوی عرفان ، فراست زیدپوری کے بارے میں بھی تفصیل سے لکھا ہے۔

Special Thanks to Zeeshan Zaidi, UK for this short biography!

مراثئ مرزا اوج

اقلیم سرکشی کا محاصل غرور ہے

AQLEEM SARKASHI KA MAHASIL GHUROOR HAI

باغ سخن میں رنگ جما ہے بہار کا

BAGH E SUKHUN MAIN RANG JAMA HAI BAHAR KA

بہم نفاق پہ جب فوج شام شوم ہوئ

BAHAM NIFAQ PE JAB FAUJ E SHAM SHOM HOI

ثناۓ خامس آل عبا ہے جان سخن

SANA E KHAMIS E AALE ABA HAI JAN E SUKHUN

جب شاہ کم سپاہ کا لشکر ہوا شہید

JAB SHAH E KAM SIPAH KA LASHKAR HOA SHAHEED

جب نور صبح قتل سے روشن جہاں ہوا

JAB NOOR SUBAH QATL SE ROSHAN JAHAN HOA

حق نے کیا کیا شرف اے خاک شفا تجھ کو دیۓ

HAQ NE KYA KYA SHARAF

دو رنکئ چمن روزگار توام ہے

DO RANGI E CHAMAN E ROZGAR TAWAM HAI

زہے معاون و انصار سرور اکرم

ZAHE MUAWIN O ANSAR SARWAR E AKRAM

سرگرم نالہ بلبل طبع نزار ہے

SARGARM NALE BULBUL E

سروش غیب سے گویا زبان حمد خدا

SAROSH E GHAIB HAI GOYA ZUBAN E HAMD E KHUDA

ظلمت ہوئ جب زلف کشا پردہء شب میں

ZULMAT HOI JAB ZULF KUSHA PARDA E SHAB MAIN

کرشمہ ساز فصاحت ہے خوش بیانی اوج

KARISHMA SAZ E FASAHAT HAI KHUSH BAYANI E AUJ

کس کام کی زبان جو صدق آشنا نہو

KIS KAM KI ZUBAN JO SADAQ ASHNA NA HO

مشہور بہار چمنستاں ہے گلوں سے

MASHOOR BAHAR E CHAMIANISTAN HAI GULOON SE

نکلا کلیم مہر کرن کا عصا لۓ

NIKLA KALEEM E MEHR KIRAN KA ASA LIYE

ہوا افق سے برآمد جو تاجدار سحر

HOA UFAQ SE BARAMAD JO TAJDAR E SAHAR

TOTAL MARSIYAS = 17

 

Total Page Visits: 5081 - Today Page Visits: 1

eMarsiya – Spreading Marsiyas Worldwide