MIR BABBAR ALI ANEES

میر انیس

 میر ببر علی انیسؔ🍁
ترتیب و انتخاب و پیشکش : ذیشان زیدی
عزیزو ! 10 دسمبر میر انیس کا یوم وفات ہے. بلاشبہ اس تحریر سے خداۓ سخن میر انیس کی عظمت کا حق ادا نہیں ہوسکتا لیکن آج خداۓ سخن کی یوم وفات پر ان کا مختصر ذکر کرتے چلیں اور ان کی تعریفوں کے بحر میں کچھ قطرے شامل کیے جائیں۔ میر انیس سن 1803 فیض آباد میں پیدا ہوئے۔ خاندانِ سادات سے تعلق تھا۔ والد میر مستحسن خلیق تھے جو ایک بہترین مرثیہ گو تھے اور ان کا پلڑا اپنے زمانے کے تین عظیم مرثیہ گو میر ضمیر ، مرزا فصیح اور دلگیر لکھنوی سے کسی طرح کم نہ تھا۔ انیس کے خاندان میں شاعری کئی پشتوں سے چلی آتی تھی۔ آپ کے مورثِ اعلیٰ میر امامی شاہ جہان کے عہد میں ایران سے ہند میں آئے تھے اور اپنے علم و فضل کی بنا پر اعلیٰ منصب پر متمکن تھے۔ ان کی زبان فارسی تھی لیکن ہندوستانی اثرات کے سبب دو نسلوں کے بعد ان کی اولاد فصیح اردو زبان بولنے لگی۔ میر انیس کے پردادا اور میر حسن کے والد میر غلام حسین ضاحک اردو کے صاحبِ دیوان اور غزل گوشاعر تھے۔ گویا میر انیس کے گھرانے کی اردو شاعری کامعیار کئ نسلوں سے متقاضی تھا کہ وہاں میر انیس جیسا صاحب سخن پروان چڑھے اور تا قیامت اہلِ ادب اُسے خدائے سخن کے نام سے پکارتے رہیں۔

یارب ! چمن نظم کو گلزارِ ارم کر
اے ابر کرم ! خشک زراعت پہ کرم کر
تو فیض کا مبدا ہے توجہ کوئی دم کر
گمنام کو اعجاز بیانوں میں رقم کر
جب تک یہ چمک مہر کے پر تو سے نہ جائے
اقلیم سخن میرے قلم رو سے نہ جائے

تعریف میں چشمے کو سمندر سے ملا دوں
قطرے کو جو دوں آب تو گوہر سے ملا دوں
ذرے کی چمک مہر منور سے ملا دوں
کانٹوں کو نزاکت میں گل ِ تر سے ملا دوں
گلدستہ معنی کو نئے ڈھنگ سے باندھوں
اک پھول کا مضموں ہو تو سو رنگ سے باندھوں

آؤں طرف ِ رزم ابھی چھوڑ کے جب بزم
خیبر کی خبر لاۓ میری طبع ِ اولوالعزم
قطع سر ِ اعدا کا ارادہ جو ہو بالجزم
دکھلاۓ یہیں سب کو زباں معرکۂ رزم
جل جائیں عدو آگ بھڑکتی نظر آۓ
تلوار پہ تلوار چمکتی نظر آۓ

مولوی حیدر علی اور مفتی حیدر عباس سے عربی ، فارسی پڑھی۔ فنون سپہ گری کی تعلیم بھی حاصل کی ۔ فن شہسواری سے بخوبی واقف تھے۔ شعر میں اپنے والد سے اصلاح لیتے تھے ۔ پہلے حزیں تخلص تھا۔ شیخ امام بخش ناسخ کے کہنے پر انیس اختیار کیا۔ ابتدا میں غزل کہتے تھے ۔ مگر والد کی نصیحت پر مرثیہ کہنے لگے

نمک خوان تکلم ہے، فصاحت میری
ناطقے بند ہیں سن سن کے بلاغت میری
رنگ اڑتے ہیں وہ رنگیں ہے عبارت میری
شور جس کا ہے وہ دریا ہے طبیعت میری
عمر گزری ہے اسی دشت کی سیاحی میں
پانچویں پشت ہے شبیرؔ کی مداحی میں

عرش ِخدا مقام جناب امیر ہے
کُرسی بھی تحتِ بام جناب امیر ہے
سطور لوح نام جناب امیر ہے
آیات حق کلام جناب امیر ہے
ایسا کسی کو خلق میں رُتبہ ملا نہیں
ساری خدا کی شان ہے لیکن خدا نہیں

میر انیس نے جب مرثیہ گوئی کے میدان میں قدم رکھا تب شاعر اعظم ُخدیو سخن مرزا سلامت علی دبیرؒ اس میدان میں اپنا مقام بنا چکے تھے. میر انیس اور مرزا دبیر نے مل کر اس صنف سخن کو بام عروج پر پہنچا دیا۔ کئی مصرعے ایک دوسرے کے کلام کو سامنے رکھ کر کہے۔ ان دونوں کا دور مرثیہ گوئی کا سنہرا دور کہلایا

سدا ہے فکر ترقی بلند بینوں کو
ہم آسمان سے لائے ہیں ان زمینوں کو
خیال خاطر احباب چاہیئے ہر دم
انیسؔ ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو

جنابِ انیس کے رقم کردہ مرثیے اب تک کروڑوں آنکھوں، زبانوں اور سماعتوں کو اپنے ملکوتی خصائل کا گواہ بنا چکے ہیں۔ انیس کے کہے ہوئے مرثیوں میں آیات و روایات، تاریخ، تخیئل، دنیا کی بے ثباتی ، اعلان صداقت، امن پسندی ، صبر و شکر ، عبرت ، مناجات ، ماحول، خلاقی قدریں ، سراپا، رَجَز، مظلومیت، آہ و بکا، مکالمات، اعداد و شمار، منطق و فلسفہ، علومِ جہانی اور اصول و عقائد کے مفاہیم کی ایسی متوازن آمیزش ملتی ہے کہ انیس کے علم و فضل کی وسعتیں بیکراں محسوس ہونے لگتی ہیں۔ رباعیات کے کچھ نمونے

احساں نہیں گر بزم ِ عزا میں آۓ
آۓ تو پناہ ِ مصطفی’ ۖ میں آۓ
گرمی ہی کے دن تھے کہ تمہاری خاطر
شبیر وطن سے کربلا میں آۓ

بلبل یہاں آکے خوش بیانی سیکھے
انداز ِ فغاں مجھ سے فغانی سیکھے
رونا میری آنکھوں سے کرے حاصل ابر
دریا میرے اشکوں سے روانی سیکھے

یک بار درود جو نبی ۖ پر بھیجے
حسنین ۴ و بتول ۴ و علی ۴ پر بھیجے
ادنی’ ہو بشر پاوے یہ رتبۂ اعلی’
دس بار درود حق اس پر بھیجے

آدم کو یہ تحفہ ، یہ ہدیہ نہ ملا
ایسا تو کسی بشر کو پایہ نہیں ملا
اللہ ری لطافت تن پاک رسول ۖ
ڈھونڈا کیا آفتاب ، سایہ نہ ملا

افسوس جہاں سے دوست کیا کیا نہ گۓ
اس باغ سے کیا کیا گل ِ رعنا نہ گۓ
تھا کون سا نخل جس نے دیکھی نہ خزاں
وہ کون سے گل کھلے جو ُمرجھا نہ گۓ

میر انیس کے کئی شعر اور مصرے اردو کے ضرب المثل اشعار بن چکے ہے مثلا یہ بند جو ایصال ثواب کی مجالس میں پڑھا جاتا ہے

عالم میں جو تھے فیض کے دریا وہ کہاں ہیں
ہم سب جو تھے افضل و اعلی وہ کہاں ہیں
جو نور خدا سے ہوئے پیدا وہ کہاں ہیں
پیدا ہوئی جن کے لئے دنیا وہ کہاں ہیں
جو زندہ ہے وہ موت کی تکلیف سہے گا
جب احمدِ مرسلﷺ نہ رہے کون رہے گا

بالکل اسی مضمون کا ایک مصرعہ انیس ؔ کے سلام کا بھی مشہور ہے

انساں کو چاہئے کہ خیالِ قضا رہے
ہم کیا رہیں گے جب نہ رسولِ خدا رہے

ڈاکٹر سید تقی عابدی فرماتے ہیں کہ میر انیس اگر صرف سلام ہی لکھتے تو بهی خداے سخن ہی رہتے . جب شفیق باپ میر خلیق نے ہنر مند بیٹے انیس سے کہا کہ بیٹا غزل کو سلام کرو تو فرمانبردار صاحبزادے نے پھر کبھی غزل کی طرف رخ نہ کیا اور بہترین سے بہترین سلام کہے

اشکوں کا شور ہے مری چشم ِ پر آب میں
دریا بھرے ہوۓ ہیں سلامی حباب میں
سہرا نہ دیکھا بانو نے اکبر کے بیاہ کا
ارماں یہ رہ گیا دل ِ پر اضطراب میں
شام و سحر دعا ہے خدا سے یہی انیس
ہوں خاک روضۂ خلف ِ بوتراب میں
زنداں میں کہتی تھی سکینہ کہ تم بغیر
کٹتا ہے دن قلق میں شب اضطراب میں
اکبر کے رخ کو دیکھ کہتے تھے اہل ِ شام
دیکھا نہیں یہ نور کبھی آفتاب میں
کہ کر یہ چلا ُحر ِ جری جانب ِ امام
دشت ِ خطا سے جاتا ہوں راہ ِ ثواب میں

انیس کے کچھ مشہور مرثیے جو بطور تحت اللفظ اور سوز خوانی میں پڑھے جاتے ہیں

فرزند پیمبر کا مدینے سے سفر ہے
آج شبیر پہ کیا عالم تنہائی ہے
بخدا فارس میدان تہور تھا حر
آفت میں گرفتار ہیں ناموس محمد
آمد آمد حرم شاہ کی دربار میں ہے
عباس علی قبلہ ارباب وفا ہے
عباس علی شیر نیستان نجف ہے
اے مومنو کیا صادق الاقرار تھے شبیر
اے مومنو کیا شور ہے ماتم کا جہاں میں
اے شمع قلم روشنی طور دکھا دے
دربار میں جب کٹ کے یتیموں کے سر آے
دربار میں زندان سے طلب ہوتے ہیں قیدی
عرش خدا مقام جناب امیر ہے
دشت بلا میں گم علی اکبر کی لاش ہے
دشت وغا میں نور خدا کا ظہور ہے
دولت کوئی دنیا میں پسر سے نہیں بہتر
فخر ملک و اشرف آدم ہیں محمد
جاتا ہے شیر بیشہ حیدر فرات پر
جب کربلا میں داخلہ شاہ دیں ہوا
یارب کسی کا باغ تمنا خزاں نہ ہو
شیر خدا کے واصف کہاں تک رقم کروں
پھول شفق سے چرخ پہ جب لالہ زار صبح
مومنوں خانہ زہرا پہ تباہی ہے آج
جب خلق سے وقت سفر فاطمہ آیا
کیا زخم ہے وہ زخم کہ مرہم نہیں جس کا

مراثی انیس کے اجزائے ترکیبی پر نظر ڈالتے ہیں

چہرہ
یارب عروس فکر کو حسن و جمال دے
ملک سخنوری کو در بے مثال دے
رنگینی کلام کو سحر حلال دے
آے قمر کو رشک وہ اوج کمال دے
گلکاریاں کروں جو مضامین کے باغ میں
پھولوں کی بو بہشت سے آے دماغ میں

سراپا کی دو مثالیں
– حضرت قاسم ابن امام حسن
شمع حرم لم یزلی تھا قد بلا
پایا یہ کہاں ماہ دو ہفتہ نے اجالا
شانے پہ کماں بر میں زرہ ہاتھ میں بھالا
اک حسن کی تصویر تھا وہ گیسوؤں والا
نقشہ کسی انساں کو دے تو حق ایسا
عالم کے مرقع میں نہیں ایک ورق ایسا

حضرت علی اکبر –
محراب ہے ان ابروؤں کی قبلہ آفاق
یاں آنکھوں سے سجدے کے لیے جھکتے ہیں عشاق
ہے دیدہ حق بین سے آیاں صنعت خلاق
جام مے وحدت سے مزین ہیں یہ دو طاق
پردہ فقط اس واسطے ہے دست مزہ کا
تا دخل نہ ہو مردم بد بین کی نگہ کا

رخصت

جناب عون و جناب محمد حضرت زینب کے بیٹے ہیں ۔ اگر چہ کم سن ہیں لیکن شجاعت ان کی سرشت میں داخل ہے ان کی رخصت کا منظر میر انیس یوں بیان کرتے ہیں۔

خیمے سے برآمد ہوئے زینب کے جو دلبر
دیکھا کہ حسین ابن علی روتے ہیں در پر
بس جھک گئے تسلیم کو حضرت کی ، وہ صفدر
منہ کرکے سوئے چرخ پکارے شہ بے پر
یہ وہ ہیں جو آغوش میں زینب کے پلے ہیں
بچے بھی تیری راہ میں مرنے کو چلے ہیں

جب بہر جنگ اکبر شیریں سخن چلے
بانو پکاری اے میرے گل پیرہن چلے
واری ! اجاڑ کے ہمارا چمن چلے
پیچھے جواں پسر کے امام زمن چلے
پردہ اٹھا جو خیمۂ گردوں پناہ کا
اک برج سے طلوع ہوا مہر و ماہ کا

تب کہنے لگا شمر ِ لعین یہ نہیں زنہار
ہے صابر و شاکر پسر ِ احمد ِ ۖ مختار
آتی ہے صدا ہاۓ برادر کی جو ہر بار
ہوتا ہے جدا سبط ِ پیمّبر ۖ سے علمدار
بے وجہ نہیں خیمے میں رونے کا یہ غل ہے
معشو‍ق سے عاشق کے جدا ہونے کا غل ہے

ذوالفقار کی تعریف

جس صف پہ چلی خون میں غلطاں کیا اس کو
مجمع تھا جدھر دم میں پریشاں کیا اس کو
جو آگے بڑھا غول سے بے جاں کیا اس کو
بخشی جسے جان بندۂ احساں کیا اس کو
بے سر تھا ازل سے تھی خطا جس کی
مارا اسے دیندار نہ تھا نسل میں جس کی

زیبا تھا دم ِ جنگ پری وش اسے کہنا
معشوق بنی ، سرخ لباس اس نے جو پہنا
جوہر تھے کہ پہنے تھی دلہن پھولوں کا گہنا
اس اوج میں وہ سر کو جھکاۓ ہوۓ رہنا
سیب ِ چمن ِ ُخلد کی بو باس تھی پھل میں
رہتی تھی وہ شبّیر سے دولہا کی بغل میں

گھوڑے کی تعریف

چیتے کی جست، شیر کی چتون ہرن کی آنکھ
چلتا تھا دیکھ دیکھ کے شاہ زمن کی آنکھ
پڑتی تھی یوں حریف پہ اس صف شکن کی آنکھ
لڑتی ہو جیسے جنگ میں شمشیر زن کی آنکھ
تیغ آئی جس پہ، اس کا بھی وار اس پہ چل گیا
وہ سر گرا گئ تو یہ لاشہ کچل گیا

دو دن سے بے زباں پہ جو تھا آب و دانہ بند
دریا کو ہنہنا کے لگا دیکھنے سمند
ہر بار کانپتا تھا سمٹتا تھا بند بند
چمکارتے تھے حضرت ِ عباس ارجمند
تڑپاتا تھا جگر کو جو شور آبشار کا
گردن پھرا کے دیکھتا تھا ُمنھ سوار کا

آمد

آمد ہے کربلا کے نیستاں میں شیر کی
ڈیوڑھی سے چل چکی ہے سواری دلیر کی
جاسوس کہہ رہے ہیں نہیں راہ پھیر کی
غش آگیا ہے شہ کو یہ ہے وجہ دیر کی
خوشبو ہے دشت ، بادِ بہاری قریب ہے
ہشیار غافلو کہ سوار ی قریب ہے

آمد ہے جگر بند شہ قلعہ شکن کی
سرداروں پہ ثابت ہے جدائی سر و تن کی
لشکر میں تلاطم ہے زمیں ہلتی ہے رن کی
سمٹی ہیں رگیں خوف سے شیروں کے بدن کی
ہے تیغ بکف قوت بازو شہ دیں کا
تھمتا نہیں ماہی پہ قدم گاو زمیں کا

پہنچا جب شکوہ سے رن میں وہ مہ جبیں
گویا فروغ ِ حسن سے روشن ہوئ زمیں
آۓ رسول ِ ۖ حق یہ ہر اک کو ہوا یقیں
ُغل تھا یہ نوجواں تو ہے یوسف سے بھی حسیں
تصویر سر سے تا پہ قدم مصطفی’ ۖ کی ہے
اس حسن کے بشر بھی ہیں قدرت خدا کی ہے

میدان میں عجب شان سے وہ شےر نر آئے
گویا کہ بہم حیدر و جعفر نظر آئے
غل پڑ گیا حضرت کی بہن کے پسر آئے
افلاک سے بالائے زمیں دو قمر آئے
یوسف سے فزوں حسنِ گراں مایہ ہے ان کا
یہ دھوپ بیاباں میں نہیں سایہ ہے ان کا

رجز

جنگ احد و بدر کو کس طرح کیا سر
خندق کی لڑائ میں چڑھا کوئ نہ منہ پر
دم میں حرم ِ کعبہ سے بت کر دیے باہر
صفین میں لشکر کی صفیں ہو گئیں بے سر
ہم صور ہیں میکائیل و اسرافیل سے پوچھو
ان ہاتھوں میں کیا زور ہے جبرئیل سے پوچھو

جب گھر سے پۓ جنگ قدم ہم نے نکالے
دم میں تن کفار کے دم ہم نے نکالے
کعبے سے دعا کرکے صنم ہم نے نکالے
اسلام کے لشکر کے علم ہم نے نکالے
رنگ رخ کفار عرب ہوگیا فق سے
ایک ضرب میں جدا کردیا باطل کو حق سے

صبح کا منظر

صبح ِ صادق کا ہوا چرخ پہ جس وقت ظہور
زمزمے کرنے لگے یاد ِ الہی میں طیور
مثل ِ خورشید برآمد ہوۓ خیمے سے حضور
یک بیک پھیل گیا چار طرف دشت میں نور
شش جہت میں ُرخ مولا سے ظہور ِ حق تھا
صبح کا ذکر ہے کیا چاند کا چہرہ فق تھا

ٹھنڈی ٹھنڈی وہ ہوائیں وہ بیاباں وہ سحر
دم بدم جھومتے تھے وجد کے عالم میں شجر
اوس نے فرس ِ زمرد پہ بچھاۓ تھے ُگہر
لوٹی جاتی تھی لہکتے ہوۓ سبزے پہ نظر
دشت سے جھوم کے جب باد ِ صبا آتی تھی
صاف ُغنچوں کے چٹکنے کی صدا آتی تھی

جنگ

اللہ رے لڑائی میں شوکت حسین کی
تھی تیغ و ذوالجناح میں سرعت حسین کی
قدرت بغور تکتی تھی صورت حسین کی
قہر ِ خدا سے کم نہ تھی ہیبت حسین کی
بولے علی، حسین! ہو اب بھی حواس میں
ایسی تو جنگ ہم نہ لڑیں بھوک و پیاس میں

شہادت
جب کوفیوں نے کوفہ میں مسلم سے دغا کی
جو عہد کیا ایک نے اس پر نہ وفا کی
کی شرم خدا سے نہ محمد سے حیا ءکی
مظلوم پہ ، بے کس پہ، مسافر پہ جفا کی
پانی نہ دمِ مرگ دیا تشنہ دہن کو
کس ظلم سے ٹکڑے کیا آوارہ وطن کو

اصحاب امام حسینؑ

اللہ ری وفاۓ رفقاۓ شہ ِ ذی جاہ
دل سینوں میں لبریز ولاۓ شہ ِ ذی جاہ
سر دیتے تھے ہنس ہنس کے براۓ شہ ِ ذی جاہ
کرتے تھے سفر چوم کے پاۓ شہ ِ ذی جاہ
دنیا کی نہ جانب تھیں نہ دریا کی طرف تھیں
مرتے ہوۓ آنکھیں شہ ِ والا کی طرف تھیں

اللہ اللہ عجب فوج ، عجب غازی تھے
عجب اسوار تھے بے مثل ، عجب نمازی تھے
لائق ِ مدح و سزاوار ِ سرفرازی تھے
گو بہت کم تھے ، پہ آمادۂ جاں بازی تھے
پیاس ایسی تھی کہ آگئ جاں ہونٹوں پر
صابر ایسے تھے کہ پھیری نہ زباں ہونٹوں پر

بے نقطہ بند / صنعت غیر منقوط

سردار ِ ُامم محرم ِ اسرار ِ محمد ۖ
مہرو اسد اللہ کا دل دار محمد ۖ
دل دار و دل آرام و مددگار محمد ۖ
ممدوح ملک مالک ِ سرکار محمد ۖ
سرور کہو اسلام کا اس مالک ِ ُکل کو
آرام دو اک دم دل ِ سردار ُرُسل کو

بین
آواز پسر سنتے ہی حالت ہوئی تغیر
چلا کے کہا ہائے کلیجے پہ لگا تیر
برچھی سے تو زخمی ہوئے واں اکبرِ دے گر
بسمل سے تڑپنے لگے یاں حضرت شبیر
تھا کون اُٹھاتا جو زمیں سے انہیں آکر
اُٹھ کر کبھی دوڑے تو گرے ٹھوکریں کھا کر

میر ببر علی انیس کو دشت کربلا کا عظیم ترین سیّاح قرار دیا گیا ہے۔ میر انیس نے روایتی مرثیہ کے علاوہ سلام، قصائد، نوحہ اور رباعیات کا بھی کثیر ذخیرہ چھوڑا ہے۔ رباعیاتِ انیس کی تعداد محققین کے مطابق چھ سو کے برابر ہے۔ میر انیس کے کئی مراثی میں معجزاتی کرشمہ کاری کا عنصر ملتا ہے۔آپ کے ایک نواسے میر عارف کی تحریری یادداشت سے پتہ چلتا ہے کہ ۱۸۵۷ء کے اواخر میں میر انیس نے ایک سو ستاون بند یعنی ایک ہزار ایک سو بیاسی مصرعوں کا یہ شاہکار مرثیہ ” جب قطع کی مسافتِ شب آفتاب نے” ایک ہی شب میں لکھا اوراپنے خاندان کے عشرۂ مجالس میں پڑھا۔ میر انیس کے تین فرزندان تھے میر نفیس، میر جلیس اور میر سلیس اور یہ تینوں منجھے ہوے شاعر و مرثیہ نگار تھے۔ والد کے بعد میر نفیس کا مرثیہ اعلٰی پائے کی مرثیہ نگاری میں شمار ہوا ہے۔ انیس کے شاگردوں میں میر مونس ، محسن ذوالقدر اور فارغ سیتپوری نمایاں خصوصیات رکھتے ہیں۔

میر انیس پر بہت زیادہ کتابیں لکھی گئی ہیں خصوصا مسعود حسن رضوی ادیب ، پروفیسر نیر مسعود ، ڈاکٹر ہلال نقوی ، علامہ ضمیر اختر نقوی ، ڈاکٹر تقی عابدی کے نام سر فہرست ہیں جنہوں نے بہت تفصیل میر انیس پر لکھا ہے۔ پروردگار کروٹ کروٹ جنت عطا فرماے

REFERENCES

ANEES MATBOA MARSIYE – FEHRIST BY PETER KNAPCZYK TIMSAL MASOOD

MARASI E JANAB E MIR ANEES

 

AAFAT MAIN GIRAFTAR HAIN NAMOOS E MUHAMMAD

AAFTAB E FALAK E IZZO SHARAFAT HAIN HUSSAIN

AAJ SHABBIR PE KYA ALAM E TANHAI HAI

AALAM MAIN MURTAZA KI WILADAT KI DHOO0M HAI

AAMAD AAMAD HARAM E SHAH KI DARBAR MAIN HAI

AAMAD HAI JIGAR BAND E SHAH E QALA SHIKAN KII

AAMAD HAI KARBALA MAIN SHAH E DEEN PANAH KI

AAMAD HAI KARBALA KE MAYASTAN MAIN SHER KI

AAYA ZAWAL RAN MAIN JO MEHR E MUNEER PAR

ABBAS E ALAMDAR KI DARGAH KE SADGAYY

ABBAS E ALI GOHAR E DARYA E SHARAF HAI

ABBAS E ALI QIBLA E ARBAB E WAFA HAI

ABBAS E ALI SHER E NAYASTAN E NAJAF HAI

ABBAS E ALI SHER E NAYASTAN E NAJAF HAI

ABBAS E ALI YOUSUF E KANAN E ALI HAY

ABBAS KE JO NEHR PA SHANAY QALAM HOYE

ABBAS KI TOSEEF MAIN AYE TABA RAWAN HO

ABBAS-E-NAMDAAR-KI-AAMAD-KA-SHOR-HAI

AFSOS AHLEBAIT KAHAN WOH MAKAN KAHAN

AI MOMINOO KYA SADIQ UL IQRAR THEY SHABBIR

AI SHAM E QALAM ROSHNI E TOOR DIKHA DE

ARSH E KHUDA MAQAAM E JANAB E AMEER HAI

AYE AFTAB E ZEHN RESA JALWA GAR HO AAJ

AYE AHL E AZA RUKHSAT E AKBAR HAI PIDAR SE

AYE BAKHT RESA ROZA E SHABBIR DEKHA DE

AYE HUSN E BAYAN AINA E HUSN DIKHA DE

AYE MOMINO AULAD KA MARNA BHI SITAM HAI

AYE MOMINO HILAL E MUHARRAM AYAN HOA

AYE MOMINO HUSSAIN KA MATAM AKHEER HAI

AYE MOMINO KYA MARTABA E SIBT E NABII HAI

AYE MOMINO KYA SHOR HAI MATAM KA JAHAN MIAN

AYE MOMINO MARNE KE LIEY JATE HAIN AKBAR

AYE MOMINO MASROOF RAHO YAD E KHUDA MAIN

AYE MOMINO ROO O KE MUSEEBAT KE DIN AAYE

AYE RAKHSH E KALAK RAZM KA MAIDAN DEKHA MUJHAY

AYE SHAM E QALAM ROSHNI E TOOR DIKHA DE

AYE SHAM E ZUBAN ANJUMAN AFROZ BAYAN HO

AYE TABA RESA KHULD KA GULZAR DIKHAAA DE

AYE TEGH E ZUBAN JOHAR E TAQREER DIKHA DEY

BAKHUDA FAARIS E MAIDAAN E TAHAWWUR THA HUR

BARHAM HAI MURAQQA CHAMANISTAN E JAHAN KA

BASHAR KE JISM SE RANJ E FARAQ E JAAN POOCHO

BULBUL HOON BOOSTAN E SHAH E TAJDAR KA

CHALA JO GHAR SE ALAMDAR E SHAH DARYA PAR

DAFTAR E DEEN HOA DARHAM O BARHAM RAN MAIN

DARBAR MAIN JAB KAT KE YATEEMON KE SAR AAYE

DARBAR MAIN ZINDAN SE ASEERON KI TALAB HAI

DARBAR MAIN ZINDAN SE TALAB HOTE HAIN QAIDI

DARPESH HOA JAB SE SAFAR SIBTE NABI KO

DASHT E BALA MAIN GUM ALI AKBAR KI LASH HAI

DASHT E JANGAH MAIN ZAINAB KE JO PYARE AAYE

DASHT E WEGHA MAIN NOOR E KHUDA KA ZAHOOR HAI

DAULAT KOI DUNYA MAIN PISAR SE NAHIN BEHTAR

DIN GUZRAY BOHAT QAID MAIN JAB AHLE HARAM KO

DO SHERON KI NAIZON KE NAYASTAN MAIN HAI AAMAD

DOZAKH SE JAB AAZAD KIYA HUR KO KHUDA NE

DUNYA SE ALAMDAR E DILAWAR KA SAFAR HAI

DUSHMAN KO BHI DUNYA MAIN NA AULAD KA GHAM HO

DUSHMAN KO BHI KHUDA NA DIKHAE PISAR KA DAAGH

FAKHR E MALAK O ASHRAF E AADAM HAI MUHAMMAD

FARZAND E PAYAMBAR KA MADINAEY SE SAFAR HAI

FARZAND E PAYAMBAR SE JUDA HOTE HAIN SARWAR

GARDOON MAIN JAB BAYAZ E SAHAR KA WAQAR KHULA

GHAM E PIDAR MAIN JO SUGHRA NAHEEF O ZAR HOYI

GHASH HO GAYE JAB PYAS KE MARE ALI ASGHAR

GHUL AAMAD E ABBAS KA HAI FAUJ E SITAM MAIN

GHUL AAMAD E AKBAR KA HAI MAIDAN E WAGHA MAIN

GHUL HAI AADA MAIN KE ZAINAB KE PISAR AATAY HAIN

GHUL HAI MAIDAN MAIN KE ZAINAB KE PISAR AATAY HAIN

GHASH HOYE PYAS SE JAB BANO KE JANI ASGHAR

GHURBAT MAIN KI QAZA JO SHAH E MASHREQAIN NE

HAFTAM KO HOA BAND JO PANI SHEH E DEEN PAR

HAAN BOOSTAN E TABA DIKHA PHIR BAHAR E NAZM

HAI GHAZA E UZAR E SUKHAN MURTAZA KI MADEH

HAI SHOR AAMAD AAMAD E HUR FOJ E SHAH MAIN

HAI ZEVAR E. UROOJ E SUKHUN PANJATAN KI MADHAY

HAMSURAT E MEHBOOB E KHUDA THEY ALI

HAZRAT SE JAB BIRADAR E KHUSH KHU JUDA HOA

HAZRAT SE KARBALA E MOALLA QAREEB HAI

HIND AATI HAI ZINDAN MAIN BARE JAH O HASHAM SE

HOTAY HAIN BOHAT RANJ MUSAFIR KO SAFAR MAIN

JAATA HAI SHER E BESHA E HAIDER FARAT PAR

JAB AAB E RAWAN BAND HOA FAUJ E KHUDAA PAR

JAB AAFTAB TAAJ E SAR E AASMAN HOA

JAB AAKHRI RUKHSAT KO HUSSIAN AAYE HARAM MAIN

JAB AAMAD E SARDAR E DO ALAM HOI RAN MAIN

JAB AASMAN PE KHATM HOA DOR E JAM E SHAB

JAB BAD E KHIZAN CHAL GAYI AHMAD KE CHAMAN PAR

JAB BADBAN E KASHTI E SHAH E UMAM GIRAA

JAB BAGH E HUSSAINI PA KHIZAN CHA GAYI RAN MAIN

JAB BEHR E SHAHADAT MAIN SHANAA KAR GAYE ABBAS

JAB DAKHIL E JANNAT HOA LASHKAR SHAH E DEEN KA

JAB DASHT E MUSEEBAT MAIN ALI KA PISAR AAYA

JAB DAULAT E SARWAR PE ZAWAAL AA GAYA RAN MAIN

JAB FOJ E KHUDA QATL HOI RAH E KHUDA MAIN

JAB FAUJ E MUKHALIF MAIN HOYE GUM ALI AKBAR

JAB GHARQ E BEHAR E KHOON HOI KASHTI NEJAT KI

JAB GUL HOA CHARAGH E HASAN RAZM GAAH MAIN

JAB HARAM MAQTAL E SARWAR SE WATAN MAIN AAYE

JAB HAZRAT E ZAINAB KAY PISAR MAR GAYE DONON

JAB HUR KO MILA KHELAT E PUR KHOON SHAHADAT

JAB HUR E JARI FAUJ E BAD ANJAM SE NIKLA

JAB HUYE AAZIM E GULGASHT E SHAHADAT QASIM

JAB JAN NISAR E SIBT E PAYAMBAR HUE SHAHEED

JAB JANG KO MAIDAN MAIN SHEH E TASHNA LAB AAYA

JAB KARBALA MAIN DAKHLAE SHAH E DEEN HOA

JAB KARBALA MAIN KHATIMA E PANJTAN HOA

JAB KARBALA MAIN NOOR E SAHAR JALWAGAR HOA

JAB KAT GAYA TEGHON SE GULISTAN E MUHAMMAD

JAB KE KHAMOSH HOI SHAM E IMAMMAT RAN MAIN

JAB KE MAHBOOS HOYE AHL E HARAM ZINDAAN MAIN

JAB KE TEERON SE BADAN SHAH KE GHURBAL HOA

JAB KE ZAKHMI HOYE HAMSHAKL E PAYAMBAR RAN MAIN

JAB KHA KE SINA KHOON MAIN HOYE TAR ALI AKBAR

JAB KHAIDIYON KO KHANA E ZINDAN MAIN SHAB HOI

JAB KHAIMA E FARZAND E PAYAMBAR HOA TARAJ

JAB KHAIME MAIN RUKHSAT KO SHAH E BEHAR O BAR AAYE

JAB KHATA KI MUSAFAT E SHAB AAFTAB NE

JAB KHATIMA BAKHAIR HOA FAUJ E SHAH KA

JAB KOOFION NE KOOFAY MAIN MUSLIM SE DAGHA KI

JAB LASHA E QASIM KO ALAMDAR NE DEKHA

JAB LASHKAR E KHUDA KA ALAM SARNAGOON HOA

JAB LOOT LIYA BAGH E PAYAMBAR KO KHIZAN NE

JAB MAR CHUKAY ANSAR DILAWAR SHAH E DEEN KE

JAB MANZIL E MAQSAD PE IMAM E ZAMAN AAYE

JAB NAKHUDA E KASHTI E EEMAN HOA SHAHEED

JAB NOJAWAN PISAR SHAH E DEEN SE JUDA HOA

JAB QAIDYON KO KHANA E ZINDAAN MAN SHAB HOI

JAB QASD KIYA NEHAR KA SAQQA E HARAM NE

JAB QATA KI MUSAFAT E SHAB AAFTAB NEY

JAB QATAA HOE NAKHAL GULISTAN ALI KE

JAB QATL HOA ZOHAR TAK ISLAM KA LASHKAR

JAB RAAT IBADAT MAIN BASAR KI SHAH E DEEN NE

JAB RAFEEQAN E HUSSAIN IBN E ALI KAAM AYE

JAB RO CHUKAY HAZRAT E ALI AKBAR SE PISAR KO

JAB RUN MAIN AAMAD AAMAD E SULTAN E DEEN HOI

JAB RAN MAIN HOA KHATIMA E LASHKAR E SHABBIR

JAB RUN MAIN SAR BULAND ALI KA ALAM HOA

JAB RUN NAIN HUSSAIN ASGHAR E BESHEER KO LAYE

JAB SAKEENA PE BOHAT PYAS NE TUGHYANI KI

JAB SHAH KO MOHLAT NA MILI TOF E HARAM KI

JAB SHAM KE ZINDAN MAIN HOI SHAM HARAM KO

JAB SIBTE NABI GHIR GAYE MAIDAN E SITAM MAIN

JAB SUBH E SHAB E AQD E CHARAGH E HASAN AAYI

JAB SUBHE SHAB E QATL NUMAYAN HOYI RAN MAIN

JAB SUNI HIND KE AANE KI KHABAR ZAINAB NE

JAB TAI KIYA SHEH NE SAFAR E RAH E KHUDA KO

JAB TAUQ O SALASAL MAIN MUSALSAL HOYE ABID

JAB TEGH E KEEN HUSSAIN KI GARDAN PE

JAB TEGH E SITAM CHAL GAYI LASHKAR PA KHUDA KE

JAB TEGH E YADULLAH KHINCHI DASHT E WAGHA MAIN

JAB TEGH E ZULM SE SAR E SARWAR JUDA HOA

JAB TEERON SE MAJROH HOA QASIM E NAUSHAH

JAB TOOL KHINCHA KHANA E ZINDAN MAIN

JAB ZAKHMI HO KE RAN MAIN SHAH E BEHR O BAR GIRAY

JAB ZULF KO KHOLAY HOYE LAILA E SHAB AAYI

JATI HAI KIS SHIKOH SE RAN MAIN KHUDAA KI FAUJ

JEEENE SE GHAM E SHAH MAIN BEZAR THI SUGHRA

JIS DAM HUSSAIN DILBAR E SHABBAR KO RO CHUKAY

JIS DAM NAMAZ E SUBH ADA KI HUSSAIN NE

JIS DAM SHARAF ANDOZ E SHAHAADAT HOYE ABBAS

JIS DAM YAZEED SHAM MAIN MASNAD NASHEEN HOA

JIS WAQT YEH SHEEREEN NE SUNA AATAY HAIN SHABBIR

KAABE SE KIYA JAB KE SAFAR QIBLA E DEEN NE

KAAM AA CHUKI JAB FAUJ IMAM E MADANI KI

KARBALA MAIN JAB ZAWAL E KHUSRAWE KHAWAR HOA

KHADIM HAIN JIBRAEEL E AMEEN KIS JANAB KE

KHAIR UN NISA KE BAGH MAIN AAMAD KHIZAN KI HAI

KHOLA ALAM JO KHUSRAWE ZARREEN KALAH NE

KHURSHEED E FALAK AKS E DUR E TAJ E ALI HAI

KHURSHEED E HAQEEQAT RUKH E ZEBAI ALI HAI

KHURSHEED NE KHOLA JO BAYAZ E SAHARI KO

KINAAN E MUHAMMAD KE HASEENON KA SAFAR HAI

KOOFE MAIN JAB HARAM E HAZRAT E SHABIR AAYE

KYA BEHR HAI WOH BEHR KINARA NAHIN JIS KA

KYA FOJ E HUSSAINI KE JAWANAN E HASEEN THEY

KYA GHAZIAN E FAUJ E KHUDA NAM KAR GAYE

KYA HAZRAT E SHABBIR PEY ALTAF E KHUDA THEY

KYA ISHQ THA SHABBIR SE MEHBOOB KE KHUDA KO

KYA RUTBA E DARBAAR E IMAM E MADANI HAI

KYA MARTABAY BUTOOL KO HAQ NE ATA KIYE

KYA PESH E KHUDA SAHIB E TAUQEER HAI ZAHRA

KYA UQDA KUSHA KHALQ MAIN NAAM E SHAH E DEEN HAI

KYA ZAKHM HAI WOH ZAKHM KE MARHAM NAHIN JIS KA

KYON ZALZALE MAIN AAJ ZAMIN KARBALA KI HAI

LAHU SE LAAL JO RUN MAIN ALI KA LAAL HOA

MAIDAN MAIN AAMAD AAMAD E FASL E BAHAR HAI

MAIDAN MAIN HOA KHATIMA JAB AAL E ABA KA

MASHRIQ SE SUBAH KI SUFAIDI JO AYAN HOI

MASJID MAIN QATL JAB SHAH E KHAIBAR SHIKAN HOYE

MEHR E SIPEHR E IZZ O SHARAFAT HAI FATIMA

MOMINO KHANA E ZEHRA PE TABAHI HAI AAJ

MOMINO KHATIMA E FAUJ E KHUDA HOTA HAI

MOMINOO MARNE KO HAM SHAKL E NABI JATA HAI

MUFTAH E QUFL E BAB E SUKHAN HAI ZUBAN MERI

NAMAK KHWAN E TAKALLUM HAI FASAHAT MERI

NIKLI JO RUN MAIN TEGH E HUSSAINI GHILAF SE

PA CHUKAY SHEH SE JO MARNE KI IJAZAT ABBAS

PAI YE KHABAR ZAFAR E JINN NE JO KISI SE

PAMAL JAB SAHAR NE KIYA SABZA ZAR E SHAB

PEERI MAIN CHUTAY SHAH JO FARZAND E JAWAN SE

PHAADA JO GAREBAAN SHAB E AAFAT KI SAHAR NE

PHOOLA SHAFAQ SE CHARKH PE JAB LALAZAR E SUBH

POHONCHA JO KARBALA MAIN GHAREEB UL WATAN HUSSAIN

POHANCHI YEH KHABAR KHAIMAY MAIN YEH SHEH KI BAHAN

QATL JAB RAN MAIN HOYE MOUNIS O GHAMKHWAR HUSSAIN

RAN MAIN JAB HUR E ZEESHAN NE SHAHADAT PAYI

RAN MAIN JAB JANG KO ABBAS E ALI AA POHONCHA

RUN MIAN JAB ZAINAB E BEKAS KE PISAR QATL HOYE

RAN SE JAB AA KE SINAN AKBAR E ZEESHAN AAYE

RATBULLISAN HOON MADHE SHAH E KHAS O AAM MAIN

ROE SUKHAN SANA E HUSSAIN E SHAHEED HAI

RO O MOHIBBO AAJ QAYAMAT KA ROZ HAI

RUKHSAT HAI PIDAR SE ALI AKBAR SE JAWAN KI

SAB SE JUDA RAWISH MERE BAGH E SUKHAN KI HAI

SARSABZ HAI SANAE HASAN SE SUKHAN MERA

SHAMSHAD E BOSTAN E RESALAT HUSSAIN HAI

SHEEREEN SUKHANI KHATM THI HAMSHAKL E NABII PAR

SHOR HAI RAN MAIN KE HAIDER KA NISHAN AATA HAI

SHABBIR TAJ E TAARUK E

SHER E KHUDA KE WASF KAHAN TAK RAQAM KAROON

SIBT E NABI SE MANZIL E MAQSAD KHAREEB HAI

TAARAJ JAB KHAYAM E SHAH E KARBALA HOE

TAJ E SAR E SUKHAN HAI SHAH E LA FATAH KI MADEH

TALAF HOI JO SHAH E KHUSHKHISAL KI DAULAT

TEY KAR CHUKAY HUSSAIN JO RAAH E SAWAB KO

TEY KAR CHUKA JO MANZIL E SHAB KARWAAN E SUBH

THEY HUSN MAIN YOUSUF SE BHI BEHTAR ALI AKBAR

WA HASRATA KE EHD E JAWANI GUZAR GAYA

WALLAH AJAB SHAN E SHEHANSHAH E RASUL HAI

YA KHUDA DIL KO KISI KE GHAM E AULAD NA HO

YARAB CHAMAN E NAZM KO GULZAR E IRAM KAR

YARAB JAHAN MAIN BHAI SE BHAI JUDA NA HO

YARAB JAHAN MAIN KOI ASEER E BALA NA HO

YARAB KISI KA BAGH E TAMANNA KHIZAN NA HO

YARAB UROOS E FIKR KO HUSN E JAMAL DE

YAQUB E MUSTAFA SE JO YUSUF JUDA HOA

YOUSUF KO AZEEZON SE CHURAYA JO PIDAR NEY

ZAINAB NE SUNI JAB YEH KHABAR SHAH E UMAM SEY

ZINDAN E SHAM MAIN JO ASEERON KO JA MILI

ZAKHMI HOYE JAB RAN MAIN JANAB E ALI AKBAR

ZEWAR E KAABA E TASLEEM O REZA HAI SHABBIR

ZINDAN MAIN QAID JAB SHAH E DEEN KA HARAM HOYE

 

TOTAL MARSIYAS : 237

 

 

 

 

 

 

 

 

Total Page Visits: 15249 - Today Page Visits: 7

eMarsiya – Spreading Marsiyas Worldwide